سینت کر ایمان کچھ دن اور رکھنا ہے ابھی
آج کل بازار میں مندی ہے سستا ہے ابھی
درمیاں جو فاصلہ رکھا ہوا سا ہے ابھی
اک یہی اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے ابھی
یوں ہی سب مل بیٹھتے ہیں سابقون الاولون
دشت میں جاری ہمارا آنا جانا ہے ابھی
مسکرانا ایک فن ہے اور میں نومشق ہوں
پھر بھی کیا کم ہے اسے بے چین دیکھا ہے ابھی
قمقموں کی روشنی میں بھی نظر آتا ہے چاند
گاؤں میں میرا پرانا اک شناسا ہے ابھی
جا بجا بکھرے پڑے ہیں سارے اعضا خواب کے
زیر مژگاں کس نے یہ شب خون مارا ہے ابھی
کیوں نہ گھڑ لیں کچھ مناقب اور فضائل حبس کے
جب اسی اندھے کنویں میں ہم کو جینا ہے ابھی

غزل
سینت کر ایمان کچھ دن اور رکھنا ہے ابھی
صابر