EN हिंदी
وہ اور ہوں گے نفوس بے دل جو کہکشائیں شمارتے ہیں | شیح شیری
wo aur honge nufus be-dil jo kahkashaen shumarte hain

غزل

وہ اور ہوں گے نفوس بے دل جو کہکشائیں شمارتے ہیں

صابر

;

وہ اور ہوں گے نفوس بے دل جو کہکشائیں شمارتے ہیں
یہ رات ہے پورے چاند کی ہم تری محبت حصارتے ہیں

بڑی مہارت سے اس کی سانسوں میں نغمگی کر رہے ہیں پیدا
وہ جتنا انجان بن رہا ہے ہم اتنا اس کو نہارتے ہیں

تمہاری نظروں کا ہے مقدر یہ جھیل کا پر سکون پانی
ہم اپنی آنکھوں کے کینوس پر ہزار موجیں ابھارتے ہیں

سبھی مسافر چلیں اگر ایک رخ تو کیا ہے مزا سفر کا
تم اپنے امکاں تلاش کر لو مجھے پرندے پکارتے ہیں

تمہیں سے صابرؔ ہوئی ہے کوتاہی تیرگی کی محافظت میں
سنا نہیں تھا کبھی یہ پہلے کہ جگنو شب خون مارتے ہیں