کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے
تھے گدا تحفۂ نایاب اٹھا کر لے آئے
کون سی کشتی میں بیٹھیں ترے بندے مولا
اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لے آئے
ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے
ایسا ضدی تھا مرا عشق نہ بہلا پھر بھی
لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے
سطح ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی
ہم خزانوں کو تہہ آب اٹھا کر لے آئے
جب ملا حسن بھی ہرجائی تو اس بزم سے ہم
عشق آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے
اس کو کم ظرفی رندان گرامی کہیے
نشے چھوڑ آئے مئے ناب اٹھا کر لے آئے
انجمن سازئ ارباب ہنر کیا کہیے
ان کو وہ اور انہیں احباب اٹھا کر لے آئے
ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے جب لوگ تو ہم
گفتگو کے نئے آداب اٹھا کر لے آئے
خواب میں لذت یک خواب ہے دنیا میری
اور مرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے
غزل
کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے
عبید اللہ علیم