عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے
وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے گئے
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اک آن میں بکھر سے گئے
بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی
کہ اک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے
ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے
کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام
اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر سے گئے
یہ حال ہو گیا آخر تری محبت میں
کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے
مرا ہی رنگ تھے تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں
مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے
جو زخم زخم زباں بھی ہے اور نمو بھی ہے
تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے گئے
غزل
عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے
عبید اللہ علیم