دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت
جو ہو گئے ہو فسانہ تو یاد آؤ مت
خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں
اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ مت
زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ مت
تمہارا سر نہیں طفلان رہ گزر کے لیے
دیار سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ مت
سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ مت
ہمارے عہد میں یہ رسم عاشقی ٹھہری
فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ مت
وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے
سخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ مت
سپرد کر ہی دیا آتش ہنر کے تو پھر
تمام خاک ہی ہو جاؤ کچھ بچاؤ مت
غزل
دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت
عبید اللہ علیم