بھرے ہوئے ہیں ابھی روشنی کی دولت سے
دیئے جلائیں گے ہم بھی مگر ضرورت سے
بہت سے خواب حقیقت میں دل نواز نہ تھے
بہت سے لوگ چلے آ رہے ہیں جنت سے
اسی نگاہ سے پھر تم نے مجھ کو دیکھ لیا
بدن اتار کر آیا تھا کتنی محنت سے
یہی کہ تو بڑا خوش حال ہے خداوندا
ذرا پتہ نہیں چلتا جہاں کی حالت سے
چمکتے چاند ستاروں کو دفن کر آئے
بجھے چراغ کو رکھا گیا حفاظت سے
بدن کے طاق میں جلتے ہیں بس بدن کے دیپ
یہ روشنی ہے بہت کم مری ضرورت سے
پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا
ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے
غزل
بھرے ہوئے ہیں ابھی روشنی کی دولت سے
نعمان شوق