اب کیا ملیں کسی سے کہاں جائیں ہم نظامؔ
ہم وہ نہیں رہے وہ محبت نہیں رہی
نظام رامپوری
اب تو سب کا ترے کوچے ہی میں مسکن ٹھہرا
یہی آباد ہے دنیا میں زمیں تھوڑی سی
نظام رامپوری
اب تم سے کیا کسی سے شکایت نہیں مجھے
تم کیا بدل گئے کہ زمانا بدل گیا
نظام رامپوری
ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے
نظام رامپوری
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
looking in the mirror she sees her savoir-faire
and also looks to see no one is peeping there
نظام رامپوری
اپنی انداز کے کہہ شعر نہ کہہ یہ تو نظامؔ
کہ چناں بیٹھ گیا اور چنیں بیٹھ گئی
نظام رامپوری
بحر ہستی سے کوچ ہے درپیش
یاد منصوبۂ حباب رہے
نظام رامپوری
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں
کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ
نظام رامپوری
بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے
گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی
نظام رامپوری