EN हिंदी
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے | شیح شیری
wahi log phir aane jaane lage

غزل

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

نظام رامپوری

;

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
مرے پاس کیوں آپ آنے لگے

کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے
بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے

یہ کیا جذب دل کھینچ لایا انہیں
مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے

ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے

ہمارے ہی آگے گلے غیر کے
ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے

نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب
تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے