EN हिंदी
خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی | شیح شیری
KHair yunhi sahi taskin ho kahin thoDi si

غزل

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی

نظام رامپوری

;

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
''ہاں'' تو کہتے ہو مگر ساتھ ''نہیں'' تھوڑی سی

حال دل سن کے مرا برسر رحمت تو ہیں کچھ
ابھی باقی ہے مگر چین جبیں تھوڑی سی

ہوئی جاتی ہے سحر ایسا بھی گھبرانا کیا
رات گر ہے بھی تو اے ماہ جبیں تھوڑی سی

جام مے دیکھ کے لبریز کس انداز کے ساتھ
اس کا کہنا کہ نہیں، اتنی نہیں، تھوڑی سی

بے خودی یہ دم رخصت تھی کہ سب کچھ بھولا
ان کی باتیں بھی مجھے یاد رہیں تھوڑی سی

اب یہ پیغام کسی کا کوئی لے کر جائے
ابھی لب پر ہے مرے جان حزیں تھوڑی سی

یوں تو تم روز ہی کہتے ہو سبھی کچھ مجھ سے
آج کی بات ہوئی ذہن نشیں تھوڑی سی

ان سے کچھ کہہ نہ سکا میں شب غم کی باتیں
گو کہ بھولا تھا مگر یاد بھی تھیں تھوڑی سی

بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے
گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی

اب تو سب کا ترے کوچے ہی میں مسکن ٹھہرا
یہی آباد ہے دنیا میں زمیں تھوڑی سی

اٹھے جاتے ہیں ہمیں آپ نہ بیٹھیں خاموش
آپ کی بات سمجھتے ہیں ہمیں تھوڑی سی

یاد کچھ آ کے یہ حالت ہوئی میری کہ نہ پوچھ
پچھلی گھڑیاں شب غم کی جو رہیں تھوڑی سی

صبح تک شام سے وہ گو کہ رہے پاس مرے
حسرتیں دل کی مگر رہ ہی گئیں تھوڑی سی

کوستے کیا ہو ابھی ہوتے ہیں ہم شادیٔ مرگ
گر ملے دفن کو کوچے میں زمیں تھوڑی سی

سب مرا حال وہاں کیسے کہے گا قاصد!
تو تو سنتا ہے مری بات نہیں تھوڑی سی

دولت فقر سے سب ہو گئی تسکین نظامؔ
اب کریں کیا طلب تاج و نگیں تھوڑی سی