EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے

مضطر خیرآبادی




وہ مذاق عشق ہی کیا کہ جو ایک ہی طرف ہو
مری جاں مزا تو جب ہے کہ تجھے بھی کل نہ آئے

مضطر خیرآبادی




وہ کریں گے وصل کا وعدہ وفا
رنگ گہرے ہیں ہماری شام کے

مضطر خیرآبادی




وقت آخر قضا سے بگڑے گی
آپ اس وقت میں کرم نہ کریں

مضطر خیرآبادی




وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا

مضطر خیرآبادی




وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

مضطر خیرآبادی




یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا
بھول جانا بھی تم نہیں بھولے

مضطر خیرآبادی




وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں

مضطر خیرآبادی




وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے

مضطر خیرآبادی