وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے
مضطر خیرآبادی
وہ مذاق عشق ہی کیا کہ جو ایک ہی طرف ہو
مری جاں مزا تو جب ہے کہ تجھے بھی کل نہ آئے
مضطر خیرآبادی
وہ کریں گے وصل کا وعدہ وفا
رنگ گہرے ہیں ہماری شام کے
مضطر خیرآبادی
وقت آخر قضا سے بگڑے گی
آپ اس وقت میں کرم نہ کریں
مضطر خیرآبادی
وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا
مضطر خیرآبادی
وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
مضطر خیرآبادی
یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا
بھول جانا بھی تم نہیں بھولے
مضطر خیرآبادی
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
مضطر خیرآبادی
وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے
مضطر خیرآبادی