وقت آخر قضا سے بگڑے گی
آپ اس وقت میں کرم نہ کریں
مضطر خیرآبادی
وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
مضطر خیرآبادی
وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا
مضطر خیرآبادی
ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا
مضطر خیرآبادی
تیرے موئے مژہ کھٹکتے ہیں
دل کے چھالوں میں نوک خار کہاں
مضطر خیرآبادی
تیری رحمت کا نام سن سن کر
مبتلا ہو گیا گناہوں میں
مضطر خیرآبادی
تیری الجھی ہوئی باتوں سے مرا دل الجھا
تیرے بکھرے ہوئے بالوں نے پریشان کیا
مضطر خیرآبادی
تیرے گھر آئیں تو ایمان کو کس پر چھوڑیں
ہم تو کعبے ہی میں اے دشمن دیں اچھے ہیں
مضطر خیرآبادی
تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے
مضطر خیرآبادی