EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

وقت آخر قضا سے بگڑے گی
آپ اس وقت میں کرم نہ کریں

مضطر خیرآبادی




وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

مضطر خیرآبادی




وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا

مضطر خیرآبادی




ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا

مضطر خیرآبادی




تیرے موئے مژہ کھٹکتے ہیں
دل کے چھالوں میں نوک خار کہاں

مضطر خیرآبادی




تیری رحمت کا نام سن سن کر
مبتلا ہو گیا گناہوں میں

مضطر خیرآبادی




تیری الجھی ہوئی باتوں سے مرا دل الجھا
تیرے بکھرے ہوئے بالوں نے پریشان کیا

مضطر خیرآبادی




تیرے گھر آئیں تو ایمان کو کس پر چھوڑیں
ہم تو کعبے ہی میں اے دشمن دیں اچھے ہیں

مضطر خیرآبادی




تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

مضطر خیرآبادی