EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو
کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو

مضطر خیرآبادی




مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

whether my sins are greater of your mercy pray?
My lord take account and tell me this today

مضطر خیرآبادی




مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

all these worldly troubles and longevity
blessings of the elders is the death of me

مضطر خیرآبادی




نہیں منظور جب ملنا تو وعدے کی ضرورت کیا
یہ تم کو جھوٹی موٹی عادت اقرار کیسی ہے

مضطر خیرآبادی




نہیں ہوں میں تو تری بندگی کے کیا معنی
نہیں ہے تو تو خدا کون ہے زمانے کا

مضطر خیرآبادی




نہ اس کے دامن سے میں ہی الجھا نہ میرے دامن سے یہ ہی اٹکی
ہوا سے میرا بگاڑ کیا ہے جو شمع تربت بجھا رہی ہے

مضطر خیرآبادی




نہ رو اتنا پرائے واسطے اے دیدۂ گریاں
کسی کا کچھ نہیں جاتا تری بینائی جاتی ہے

مضطر خیرآبادی




نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

I'm not the light of any eye, for me none has a care
no use to anyone am I, dust merely scattered there

مضطر خیرآبادی




محبت کا اثر پھر دیکھنا مرنے تو دو مجھ کو
وہ میرے ساتھ زندہ دفن ہو جائیں عجب کیا ہے

مضطر خیرآبادی