EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

پہلے ہم میں تھے اور اب ہم سے جدا رہتے ہیں
آپ کاہے کو غریبوں سے خفا رہتے ہیں

مضطر خیرآبادی




پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی




پڑ گئے زلفوں کے پھندے اور بھی
اب تو یہ الجھن ہے چندے اور بھی

مضطر خیرآبادی




نگاہوں میں پھرتی ہے آٹھوں پہر
قیامت بھی ظالم کا قد ہو گئی

مضطر خیرآبادی




نگاہ یار مل جاتی تو ہم شاگرد ہو جاتے
ذرا یہ سیکھ لیتے دل کے لے لینے کا ڈھب کیا ہے

مضطر خیرآبادی




نچھاور بت کدہ پر دل کروں کعبہ تو کوسوں ہے
کہاں لے جاؤں اتنی دور قربانی محبت کی

مضطر خیرآبادی




نظر کے سامنے کعبہ بھی ہے کلیسا بھی
یہی تو وقت ہے تقدیر آزمانے کا

مضطر خیرآبادی




میری ارمان بھری آنکھ کی تاثیر ہے یہ
جس کو میں پیار سے دیکھوں گا وہی تو ہوگا

مضطر خیرآبادی




میری ہستی سے تو اچھی ہیں ہوائیں یا رب
کہ جو آزاد پھرا کرتی ہیں میدانوں میں

مضطر خیرآبادی