EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے
کہیں مجھ سا اسے خدا نہ کرے

مضطر خیرآبادی




اٹھے اٹھ کر چلے چل کر تھمے تھم کر کہا ہوگا
میں کیوں جاؤں بہت ہیں ان کی حالت دیکھنے والے

مضطر خیرآبادی




اٹھتے جوبن پہ کھل پڑے گیسو
آ کے جوگی بسے پہاڑوں میں

مضطر خیرآبادی




وہاں جا کر کیے ہیں میں نے سجدے اپنی ہستی کو
جہاں بندہ پہنچ کر خود خدا معلوم ہوتا ہے

مضطر خیرآبادی




وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا

مضطر خیرآبادی




وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

مضطر خیرآبادی




وقت آخر قضا سے بگڑے گی
آپ اس وقت میں کرم نہ کریں

مضطر خیرآبادی




وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں

مضطر خیرآبادی




وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے

مضطر خیرآبادی