اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے
کہیں مجھ سا اسے خدا نہ کرے
مضطر خیرآبادی
اٹھے اٹھ کر چلے چل کر تھمے تھم کر کہا ہوگا
میں کیوں جاؤں بہت ہیں ان کی حالت دیکھنے والے
مضطر خیرآبادی
اٹھتے جوبن پہ کھل پڑے گیسو
آ کے جوگی بسے پہاڑوں میں
مضطر خیرآبادی
وہاں جا کر کیے ہیں میں نے سجدے اپنی ہستی کو
جہاں بندہ پہنچ کر خود خدا معلوم ہوتا ہے
مضطر خیرآبادی
وقت آرام کا نہیں ملتا
کام بھی کام کا نہیں ملتا
مضطر خیرآبادی
وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
مضطر خیرآبادی
وقت آخر قضا سے بگڑے گی
آپ اس وقت میں کرم نہ کریں
مضطر خیرآبادی
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
مضطر خیرآبادی
وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے
مضطر خیرآبادی