تمہاری جلوہ گاہ ناز میں اندھیر ہی کب تھا
یہ موسیٰ دوڑ کر کس کو دکھانے شمع طور آئے
مضطر خیرآبادی
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیرآبادی
تو نہ آئے گا تو ہو جائیں گی خوشیاں سب خاک
عید کا چاند بھی خالی کا مہینہ ہوگا
مضطر خیرآبادی
اڑا کر خاک ہم کعبے جو پہنچے
حقیقت کھل گئی کوئے بتاں کی
مضطر خیرآبادی
عمر سب ذوق تماشا میں گزاری لیکن
آج تک یہ نہ کھلا کس کے طلب گار ہیں ہم
مضطر خیرآبادی
ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ
وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی
مضطر خیرآبادی
ان کو آتی تھی نیند اور مجھ کو
اپنا قصہ تمام کرنا تھا
مضطر خیرآبادی
انھوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
ہزار کچھ ہو مگر اک وفا نہیں کرتے
مضطر خیرآبادی
اس کا بھی ایک وقت ہے آنے دو موت کو
مضطرؔ خدا کی یاد ابھی کیوں کرے کوئی
مضطر خیرآبادی