EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

تصور خانہ آبادی کرے گا
ترے گھر میں رہوں گا میرے گھر تو

مضطر خیرآبادی




تصور میں ترا در اپنے سر تک کھینچ لیتا ہوں
ستم گر میں نہیں چلتا تری دیوار چلتی ہے

مضطر خیرآبادی




تیرے گھر آئیں تو ایمان کو کس پر چھوڑیں
ہم تو کعبے ہی میں اے دشمن دیں اچھے ہیں

مضطر خیرآبادی




تیرے موئے مژہ کھٹکتے ہیں
دل کے چھالوں میں نوک خار کہاں

مضطر خیرآبادی




تیری رحمت کا نام سن سن کر
مبتلا ہو گیا گناہوں میں

مضطر خیرآبادی




تیری الجھی ہوئی باتوں سے مرا دل الجھا
تیرے بکھرے ہوئے بالوں نے پریشان کیا

مضطر خیرآبادی




ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا

مضطر خیرآبادی




تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

مضطر خیرآبادی




تم کیوں شب جدائی پردے میں چھپ گئے ہو
قسمت کے اور تارے سب آسمان پر ہیں

مضطر خیرآبادی