EN हिंदी
منیر نیازی شیاری | شیح شیری

منیر نیازی شیر

116 شیر

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

منیر نیازی




یہ میرے گرد تماشا ہے آنکھ کھلنے تک
میں خواب میں تو ہوں لیکن خیال بھی ہے مجھے

منیر نیازی




یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

منیر نیازی




یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیرؔ
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں

منیر نیازی




زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کی تہہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو

منیر نیازی




زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا

منیر نیازی




زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی

منیر نیازی




زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی