EN हिंदी
منیر نیازی شیاری | شیح شیری

منیر نیازی شیر

116 شیر

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

منیر نیازی




ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے

منیر نیازی




مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا

منیر نیازی




محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

منیر نیازی




مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

منیر نیازی




مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے

منیر نیازی




منیرؔ اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجر میں بیمار ہونا

منیر نیازی




منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو
ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے

منیر نیازی




منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

منیر نیازی