EN हिंदी
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو | شیح شیری
safar mein hai jo azal se ye wo bala hi na ho

غزل

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو

منیر نیازی

;

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو

نگاہ آئینہ معلوم عکس نامعلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو

زمیں کے گرد بھی پانی زمیں کی تہہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو

نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو

میں اس خیال سے جاتا نہیں وطن کی طرف
کہ مجھ کو دیکھ کے اس بت کا جی برا ہی نہ ہو

کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیرؔ
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو