اور ہیں کتنی منزلیں باقی 
جان کتنی ہے جسم میں باقی 
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں 
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی 
اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں 
خواب معدوم حسرتیں باقی 
بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے 
رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی 
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل 
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی 
وہ تو آ کے منیرؔ جا بھی چکا 
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
        غزل
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
منیر نیازی

