کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو
منیر نیازی
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
منیر نیازی
کتنے یار ہیں پھر بھی منیرؔ اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے
منیر نیازی
کوئی تو ہے منیرؔ جسے فکر ہے مری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے
منیر نیازی
کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت
منیر نیازی
کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی
منیر نیازی
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
منیر نیازی
کیوں منیرؔ اپنی تباہی کا یہ کیسا شکوہ
جتنا تقدیر میں لکھا ہے ادا ہوتا ہے
منیر نیازی
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی