EN हिंदी
منیر نیازی شیاری | شیح شیری

منیر نیازی شیر

116 شیر

کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو

منیر نیازی




کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

منیر نیازی




کتنے یار ہیں پھر بھی منیرؔ اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے

منیر نیازی




کوئی تو ہے منیرؔ جسے فکر ہے مری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے

منیر نیازی




کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت

منیر نیازی




کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی

منیر نیازی




کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا

منیر نیازی




کیوں منیرؔ اپنی تباہی کا یہ کیسا شکوہ
جتنا تقدیر میں لکھا ہے ادا ہوتا ہے

منیر نیازی




لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

منیر نیازی