کئی بار ان سے پسیجا ہے پتھر
یہ نالے مرے آزمائے ہوئے ہیں
لالہ مادھو رام جوہر
کبھی کھلتا ہی نہیں صاف کچھ اقرار انکار
ہوتے ہیں ان کی ہر اک بات میں پہلو دونوں
لالہ مادھو رام جوہر
کہا کیا جانے کیا پیغام بر سے
بہت خوش آج آتا ہے ادھر سے
لالہ مادھو رام جوہر
کیسے بے رحم ہیں صیاد الٰہی توبہ
موسم گل میں مجھے کاٹ کے پر رکھتے ہیں
لالہ مادھو رام جوہر
کیسے بھولے ہوئے ہیں گبر و مسلماں دونوں
دیر میں بت ہے نہ کعبے میں خدا رکھا ہے
لالہ مادھو رام جوہر
کر سکے دل کی وکالت نہ تری بزم میں لوگ
اس کچہری میں تو مختار بھی مجبور رہے
لالہ مادھو رام جوہر
کٹتے کسی طرح سے نہیں ہائے کیا کروں
دن ہو گئے پہاڑ مجھے انتظار کے
لالہ مادھو رام جوہر
کون ہوتے ہیں وہ محفل سے اٹھانے والے
یوں تو جاتے بھی مگر اب نہیں جانے والے
لالہ مادھو رام جوہر
کون سی شب مجھ کو ہوگی لیلۃ القدر اے خدا
دیکھیے تشریف وہ کس دن مرے گھر لائیں گے
لالہ مادھو رام جوہر