دیکھا جسے بسمل کیا تاکا جسے مارا
اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں
پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ایک کو دو کر دکھائے آئنہ
گر بنائیں آہن شمشیر سے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا
لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہاتھ دکھلا کے یہ بولا وہ مسلماں زادہ
ہو گیا دست نگر اب تو برہمن اپنا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے
فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا
دوپٹا آسمان آسماں ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے
آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی