EN हिंदी
خواجہ محمد وزیر لکھنوی شیاری | شیح شیری

خواجہ محمد وزیر لکھنوی شیر

65 شیر

ہو رہائی ضعف کے تاثیر سے
نکلیں ہم مثل صدا زنجیر سے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ
ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا
ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں
آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں
آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




کاہیدہ مجھ کو دیکھ کے وہ غیرت پری
کہتا ہے آدمی ہو کہ مردم گیاہ ہو

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج
یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو
پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی