پھول جب جھڑنے لگے رنگیں بیانی سے مری
رہ گئی حیرت سے بلبل کھول کر منقار کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
پہنچایا تا بہ کعبۂ مقصود فقر نے
ترک لباس جامۂ احرام ہو گیا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
پہن لو اے بتو زنار تسبیح سلیمانی
رکھو راضی اسی پردے میں ہر شیخ و برہمن کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو
کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
مرا کچھ حال کہہ کر ذکر مجنوں کرتے ہیں عاشق
کتاب عاشقی میں اپنا قصہ پیش خوانی ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کیا اسی نے یہ کیا مطلع ابرو موزوں
تم جو کہتے ہو سخن گو ہے بڑی میری آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کیا ہے ہرجائی حسینان جہاں ساری ہیں
یہ وہ اختر ہیں کہ ثابت نہیں سیاری ہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کیا دید کے قابل ترے کوچے کی زمیں ہے
ہر گام ہے نقش قدم رہ گزری آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی