وہ زخم لگا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
درکار ہوا مرہم نایاب کا پھاہا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے
لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں
حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
یہ دل بد گماں نہ دیکھ سکے
اگر اس بت کے ہو خدا ہم راہ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے
مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے
اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
حال پوچھو نہ مرے رونے کا بس جانے دو
ابھی رومال نچوڑوں گا تو طوفاں ہوگا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ
لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق
صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی