اجملؔ سفر میں ساتھ رہیں یوں صعوبتیں
جیسے کہ ہر سزا کا سزا وار میں ہی تھا
کبیر اجمل
کہتے ہیں کہ اٹھنے کو ہے اب رسم محبت
اور اس کے سوا کوئی تماشا بھی نہیں ہے
کبیر اجمل
کس سے میں ان کا ٹھکانا پوچھتا
سامنے خالی مکاں تھا اور میں
کبیر اجمل
کوئی صدا کوئی آوازۂ جرس ہی سہی
کوئی بہانہ کہ ہم جاں نثار کرتے رہیں
کبیر اجمل
کچھ تعلق بھی نہیں رسم جہاں سے آگے
اس سے رشتہ بھی رہا وہم و گماں سے آگے
کبیر اجمل
کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجملؔ
اس گھر پہ تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے
کبیر اجمل
لہو رشتوں کا اب جمنے لگا ہے
کوئی سیلاب میرے گھر بھی آئے
کبیر اجمل
میں بجھ گیا تو کون اجالے گا تیرا روپ
زندہ ہوں اس خیال میں مرتا ہوا سا میں
کبیر اجمل
افق کے آخری منظر میں جگمگاؤں میں
حصار ذات سے نکلوں تو خود کو پاؤں میں
کبیر اجمل