EN हिंदी
کبیر اجمل شیاری | شیح شیری

کبیر اجمل شیر

15 شیر

اسی کے ہونٹوں کے پھول باب قبول چومیں
سو ہم اٹھا لائیں اب کے حرف دعا اسی کا

کبیر اجمل




وہ میرے خواب چرا کر بھی خوش نہیں اجملؔ
وہ ایک خواب لہو میں جو پھیل جانا تھا

کبیر اجمل




یہ غم مرا ہے تو پھر غیر سے علاقہ کیا
مجھے ہی اپنی تمنا کا بار ڈھونے دے

کبیر اجمل




یوں خوش نہ ہو اے شہر نگاراں کے در و بام
یہ وادئ سفاک بھی رہنے کی نہیں ہے

کبیر اجمل




ضمیر و ذہن میں اک سرد جنگ جاری ہے
کسے شکست دوں اور کس پہ فتح پاؤں میں

کبیر اجمل




زندہ کوئی کہاں تھا کہ صدقہ اتارتا
آخر تمام شہر ہی خاشاک ہو گیا

کبیر اجمل