بجھتی رگوں میں نور بکھرتا ہوا سا میں
طوفان ننگ موج گزرتا ہوا سا میں
ہر شب اجالتی ہوئی بھیگی رتوں کے خواب
اور مثل عکس خواب بکھرتا ہوا سا میں
موج طلب میں تیر گیا تھا بس ایک نام
پھر یوں ہوا کہ جی اٹھا مرتا ہوا سا میں
اک دھند سی فلک سے اترتی دکھائی دے
پھر اس میں عکس عکس سنورتا ہوا سا میں
دست دعا اٹھا تو اٹھا اس کے ہی حضور
لیکن یہ کیا اسی سے مکرتا ہوا سا میں
اب کے ہوا چلے تو بکھر جاؤں دور تک
لیکن تری گلی میں ٹھہرتا ہوا سا میں
میں بجھ گیا تو کون اجالے گا تیرا روپ
زندہ ہوں اس خیال میں مرتا ہوا سا میں
اجملؔ وہ نیم شب کی دعائیں کہاں گئیں
اک شور آگہی ہے بکھرتا ہوا سا میں
غزل
بجھتی رگوں میں نور بکھرتا ہوا سا میں
کبیر اجمل