نئی زمین نئے آسماں سنورتے رہیں
یہی ہے شرط تو پھر حرف حرف مرتے رہیں
یہی سزا ہے کہ لمحوں کی بازگشت کے بعد
صدی صدی ترے کوچے میں بین کرتے رہیں
وہ انقلاب لکیروں سے جو ابھر نہ سکا
کہاں تلک اسی خاکے میں رنگ بھرتے رہیں
کچھ اور چاہئے دیوانگی کو حد جنوں
کچھ اور عرصۂ محشر کہ ہم گزرتے رہیں
کوئی صدا کوئی آوازۂ جرس ہی سہی
کوئی بہانہ کہ ہم جاں نثار کرتے رہیں
غزل
نئی زمین نئے آسماں سنورتے رہیں
کبیر اجمل