EN हिंदी
وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے | شیح شیری
wo KHwab talabgar-e-tamasha bhi nahin hai

غزل

وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے

کبیر اجمل

;

وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے
کہتے ہیں کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے

پہلی سی وہ خوشبوئے تمنا بھی نہیں ہے
اس بار کوئی خوف ہوا کا بھی نہیں ہے

اس چاند کی انگڑائی سے روشن ہیں در و بام
جو پردۂ شب رنگ پہ ابھرا بھی نہیں ہے

کہتے ہیں کہ اٹھنے کو ہے اب رسم محبت
اور اس کے سوا کوئی تماشا بھی نہیں ہے

اس شہر کی پہچان تھیں وہ پھول سی آنکھیں
اب یوں ہے کہ ان آنکھوں کا چرچا بھی نہیں ہے

کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجملؔ
اس گھر پہ تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے