EN हिंदी
اک تصور بیکراں تھا اور میں | شیح شیری
ek tasawwur-e-be-karan tha aur main

غزل

اک تصور بیکراں تھا اور میں

کبیر اجمل

;

اک تصور بیکراں تھا اور میں
درد کا سیل رواں تھا اور میں

غم کا اک آتش فشاں تھا اور میں
دور تک گہرا دھواں تھا اور میں

کس سے میں ان کا ٹھکانا پوچھتا
سامنے خالی مکاں تھا اور میں

میرے چہرے سے نمایاں کون تھا
آئنوں کا اک جہاں تھا اور میں

اک شکستہ ناؤ تھی امید کی
ایک بحر بیکراں تھا اور میں

جستجو تھی منزل موہوم کی
یہ زمیں تھی آسماں تھا اور میں

کون تھا جو دھیان سے سنتا مجھے
قصۂ آشفتگاں تھا اور میں

ہاتھ میں اجملؔ کوئی تیشہ نہ تھا
عزم تھا کوہ گراں تھا اور میں