ہے یہ گل کی اور اس کی آب میں فرق
جیسے پانی میں اور گلاب میں فرق
لب خوباں کہاں وہ لعل کہاں
ہے بہت شربت اور شراب میں فرق
لاکھ گالی کہی ہے کم مت دے
میں گنوں گا نہ ہو حساب میں فرق
زاہدا زہد تو پڑھا، میں عشق
ہے مری اور تری کتاب میں فرق
اے شرابی گزک تو کرتا ہے
کچھ تو کر دل میں اور کباب میں فرق
آنکھ جب سے کھلی نہ دیکھا کچھ
زندگانی میں اور حباب میں فرق
کچھ نہیں کرتے تم جو شعلے میں
اور اس روئے پر عتاب میں فرق
ہے زمیں آسمان کا یارو
ذرے میں اور آفتاب میں فرق
کیونکہ جرأتؔ ہو شیخ تجھ سا کہ ہے
پیری اور عالم شباب میں فرق
غزل
ہے یہ گل کی اور اس کی آب میں فرق
جرأت قلندر بخش