کس طرح دور ہوں آلام غریب الوطنی
زندگی خود بھی غریب الوطنی ہوتی ہے
جوشؔ ملسیانی
اعمال کی پرسش نہ کر اے داور محشر
مجبور تو مختار کبھی ہو نہیں سکتا
جوشؔ ملسیانی
جھکتی ہے نگاہ اس کی مجھ سے مل کر
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا
جوشؔ ملسیانی
عشق اس درد کا نہیں قائل
جو مصیبت کی انتہا نہ ہوا
جوشؔ ملسیانی
اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خلل
احباب زیر خاک سلا کر چلے گئے
جوشؔ ملسیانی
گلہ نا مہربانی کا تو سب سے سن لیا تم نے
تمہاری مہربانی کی شکایت ہم بھی رکھتے ہیں
جوشؔ ملسیانی
ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں
میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی
when hope and aspirations drown in them so easily
that tears are just some water, how can I agree
جوشؔ ملسیانی
اور ہوتے ہیں جو محفل میں خموش آتے ہیں
آندھیاں آتی ہیں جب حضرت جوشؔ آتے ہیں
جوشؔ ملسیانی
عارضوں پر یہ ڈھلکتے ہوئے آنسو توبہ
ہم نے شعلوں پہ مچلتی ہوئی شبنم دیکھی
lord forbid that tears on your cheeks do flow
like dewdrops agonizing on embers all aglow
جوشؔ ملسیانی