آگ ہے آگ تری تیغ ادا کا پانی
ایسے پانی کو میں ہرگز نہ کہوں گا پانی
نہ رہے آنکھ میں بھی دل سے نکل کر آنسو
جا بجا ان کو لیے پھرتا ہے دانا پانی
حال پوچھو نہ مرے گریۂ غم کا مجھ سے
اس کے کہنے سے بھی ہوتا ہے کلیجا پانی
سوز غم ہی سے مری آنکھ میں آنسو آئے
سوچتا ہوں کہ اسے آگ کہوں یا پانی
ترک مے خانہ گوارا نہ کروں گا ہرگز
راس ہے میری طبیعت کو یہاں کا پانی
کر دیا سب کو ترے تیر نظر نے سیراب
جس کے سینے پہ لگا اس نے نہ مانگا پانی
عیش دم بھر کا بھی دیکھا نہیں جاتا اس سے
چرخ کم بخت کی آنکھوں میں نہ اترا پانی
تیرے ہی جلوے سے ہے باغ تمنا کی بہار
یہی تنویر ہے آئینہ دل کا پانی
خلش غم سے کئے جاؤں کہاں تک نالے
میری قسمت میں تو ہر روز یہ ایذا پانی
ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں
میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی
ضبط گریہ سے بڑھی اور مصیبت اے جوشؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اب سر سے ہے اونچا پانی
غزل
آگ ہے آگ تری تیغ ادا کا پانی
جوشؔ ملسیانی