اس کے ہر رنگ سے کیوں شعلہ زنی ہوتی ہے
ان کی تصویر تو کاغذ کی بنی ہوتی ہے
عقل و مذہب کی جب آپس میں ٹھنی ہوتی ہے
پھر تو ہر راہ بری راہزنی ہوتی ہے
یاد آتی ہے جب ان کی نگہ ناز مجھے
ایک برچھی مرے سینے پہ تنی ہوتی ہے
کس طرح دور ہوں آلام غریب الوطنی
زندگی خود بھی غریب الوطنی ہوتی ہے
پھل اسے آئے نہ آئے یہ مقدر کی ہے بات
چھاؤں تو نخل تمنا کی گھنی ہوتی ہے
شکوے توقیر محبت بھی ہوا کرتے ہیں
مگر اس وقت جب آپس میں بنی ہوتی ہے
میں بھی پیتا ہوں مجھے اس سے کچھ انکار نہیں
وہ مگر دامن تقویٰ میں چھنی ہوتی ہے
ضبط گریہ سے کہیں چاک نہ ہو جائے جگر
بوند آنسو کی بھی ہیرے کی کنی ہوتی ہے
اک تمہاری ہی نزاکت ہے جو ہے تم پہ گراں
ورنہ ہر پھول میں نازک بدنی ہوتی ہے
اس قدر غیر ہے کیوں حال تمہارا اے جوشؔ
کبھی دل پر تو کبھی دم پہ بنی ہوتی ہے
غزل
اس کے ہر رنگ سے کیوں شعلہ زنی ہوتی ہے
جوشؔ ملسیانی