EN हिंदी
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر | شیح شیری
hum ji rahe hain koi bahana kiye baghair

غزل

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر

جون ایلیا

;

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر اس کی تمنا کئے بغیر

انبار اس کا پردۂ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری پردا کیے بغیر

یاراں وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل
بے حد عزیز ہے مجھے اچھا کیے بغیر

میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر

اس کا ہے جو بھی کچھ ہے مرا اور میں مگر
وہ مجھ کو چاہئے کوئی سودا کیے بغیر

یہ زندگی جو ہے اسے معنیٰ بھی چاہیے
وعدہ ہمیں قبول ہے ایفا کیے بغیر

اے قاتلوں کے شہر بس اتنی ہی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل کوئی تماشا کیے بغیر

مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بے حساب ہے
تم چھوڑیو نہ شہر کو صحرا کیے بغیر

ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا
آرائش نظر تری پروا کیے بغیر

یاراں خوشا یہ روز و شب دل کہ اب ہمیں
سب کچھ ہے خوش گوار گوارا کیے بغیر

گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام
ہم گریہ کن ازل کے ہیں گریہ کیے بغیر

آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر

وہ سنی بچہ کون تھا جس کی جفا نے جونؔ
شیعہ بنا دیا ہمیں شیعہ کیے بغیر

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر