EN हिंदी
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں | شیح شیری
badan ke donon kinaron se jal raha hun main

غزل

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

عرفانؔ صدیقی

;

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

تجھی پہ ختم ہے جاناں مرے زوال کی رات
تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں

بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو
تو آج پیرہن جاں بدل رہا ہوں میں

غبار راہ گزر کا یہ حوصلہ بھی تو دیکھ
ہوائے تازہ ترے ساتھ چل رہا ہوں میں

میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ وہ پکارتا ہے
اور اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں میں