EN हिंदी
کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے | شیح شیری
koi bijli in KHarabon mein ghaTa raushan kare

غزل

کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے

عرفانؔ صدیقی

;

کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے
اے اندھیری بستیو تم کو خدا روشن کرے

ننھے ہونٹوں پر کھلیں معصوم لفظوں کے گلاب
اور ماتھے پر کوئی حرف دعا روشن کرے

زرد چہروں پر بھی چمکے سرخ جذبوں کی دھنک
سانولے ہاتھوں کو بھی رنگ حنا روشن کرے

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے
ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

خیر اگر تم سے نہ جل پائیں وفاؤں کے چراغ
تم بجھانا مت جو کوئی دوسرا روشن کرے

آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے
جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے

دل ہی فانوس ہوا دل ہی خس و خار ہوس
دیکھنا یہ ہے کہ اس کا قرب کیا روشن کرے

یا تو اس جنگل میں نکلے چاند تیرے نام کا
یا مرا ہی لفظ میرا راستا روشن کرے