EN हिंदी
عرفان ستار شیاری | شیح شیری

عرفان ستار شیر

29 شیر

آباد مجھ میں تیرے سوا اور کون ہے؟
تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا

عرفان ستار




ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے

عرفان ستار




ہر ایک رنج اسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا

عرفان ستار




اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

عرفان ستار




اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے

عرفان ستار




جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے

عرفان ستار




کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہوا ہوں

عرفان ستار




کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

عرفان ستار




کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

عرفان ستار