کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں
اس کی خوش بو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
صبح سے رقص کناں باد صبا ہے مجھ میں
تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
غالباً تو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں
ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
یاد ہے یا کوئی نقش کف پا ہے مجھ میں
میری بے راہروی اس لیے سرشار سی ہے
میرے حق میں کوئی مصروف دعا ہے مجھ میں
اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
کوئی امکان ابھی خاک ہوا ہے مجھ میں
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
یا گرفتار کوئی میرے سوا ہے مجھ میں
آئینہ اس کی گواہی نہیں دیتا تو نہ دے
وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں
ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں
مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
ہست سے بر سر پیکار فنا ہے مجھ میں
مجلس شام غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس ابھی ماحول عزا ہے مجھ میں
ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں
خوں بہاتا ہوا زنجیر زنی کرتا ہوا
کوئی پاگل ہے جو بے حال ہوا ہے مجھ میں
اس کی خوش بو سے معطر ہے مرا سارا وجود
تیرے چھونے سے جو اک پھول کھلا ہے مجھ میں
مجھ سا بے مایہ کہاں اور کہاں زعم کلام
اے مرے رب سخن تیری عطا ہے مجھ میں
تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا مثلاً
تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں
کیسے مل جاتی ہے آواز اذاں سے ہر صبح
رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں
کتنی صدیوں سے اسے ڈھونڈ رہے ہو بے سود
آؤ اب میری طرف آؤ خدا ہے مجھ میں
مجھ میں جنت بھی مری اور جہنم بھی مرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں
روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے یہ کیا ہے مجھ میں
غزل
کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
عرفان ستار