بزعم عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
اک آئینا تھا اسی کو سیاہ میں نے کیا
یہ شہر کم نظراں یہ دیار بے ہنراں
کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا
حریم دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال
سو گل اسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا
وہی یقین رہا ہے جواز ہم سفری
جو گاہ اس نے کیا اور گاہ میں نے کیا
بس ایک دل ہی تو ہے واقف رموز حیات
سو شہر جاں کا اسے سربراہ میں نے کیا
ہر ایک رنج اسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا
یہ راہ عشق بہت سہل ہو گئی جب سے
حصار ذات کو پیوند راہ میں نے کیا
یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے
ترا ہوا نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا
خرد نے دل سے کہا تو جنوں صفت ہی سہی
نہ پوچھ اس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا
غزل
بزعم عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
عرفان ستار