کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
جہاں سے دل کی طرف زندگی اترتی تھی
نگاہ اب بھی اسی بام پر جمی ہوئی ہے
ہے انتظار اسے بھی تمہاری خوش بو کا
ہوا گلی میں بہت دیر سے رکی ہوئی ہے
تم آ گئے ہو تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
ہمارا علم تو مرہون لوح دل ہے میاں
کتاب عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے
بناؤ سائے حرارت بدن میں جذب کرو
کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے
نہیں نہیں میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی
تری نگاہ کو پہنچی تو شاعری ہوئی ہے
غزل
کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
عرفان ستار