EN हिंदी
یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سوا موجود ہے | شیح شیری
ye KHabar hai, mujh mein kuchh mere siwa maujud hai

غزل

یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سوا موجود ہے

عرفان ستار

;

یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جا بجا موجود ہے

ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے

حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے

تاب آنکھیں لا سکیں اس حسن کی، ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئنہ موجود ہے

رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے باد صبا موجود ہے

روشنی سی آ رہی ہے اس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدت بھی جو زیر قبا موجود ہے

ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے

درد کی شدت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے

معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے

خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے

ایک ہی شعلہ سے جلتے آ رہے ہیں یہ چراغ
میرؔ سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے

یوں تو ہے عرفانؔ ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے