EN हिंदी
عرفان ستار شیاری | شیح شیری

عرفان ستار شیر

29 شیر

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلا بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

عرفان ستار




میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں
جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے

عرفان ستار




کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

عرفان ستار




کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

عرفان ستار




کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

عرفان ستار




کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہوا ہوں

عرفان ستار




جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے

عرفان ستار




اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے

عرفان ستار




اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

عرفان ستار