آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
اقبال اشہر
آرزو ہے سورج کو آئنہ دکھانے کی
روشنی کی صحبت میں ایک دن گزارا ہے
اقبال اشہر
اشہرؔ بہت سی پتیاں شاخوں سے چھن گئیں
تفسیر کیا کریں کہ ہوا تیز اب بھی ہے
اقبال اشہر
جو اس کے ہونٹوں کی جنبش میں قید تھا اشہرؔ
وہ ایک لفظ بنا بوجھ میرے شانوں کا
اقبال اشہر
کسی کو کھو کے پا لیا کسی کو پا کے کھو دیا
نہ انتہا خوشی کی ہے نہ انتہا ملال کی
اقبال اشہر
لے گئیں دور بہت دور ہوائیں جس کو
وہی بادل تھا مری پیاس بجھانے والا
اقبال اشہر
مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی
اقبال اشہر
نہ جانے کتنے چراغوں کو مل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے
اقبال اشہر
پھر ترا ذکر کیا باد صبا نے مجھ سے
پھر مرے دل کو دھڑکنے کے بہانے آئے
اقبال اشہر