بدن میں اولیں احساس ہے تکانوں کا
رفیق چھوٹ گیا ہے کہیں اڑانوں کا
حصار خواب میں آنکھیں پناہ لیتی ہوئی
عجب خمار سا ماحول میں اذانوں کا
چراغ صبح سی بجھنے لگیں مری آنکھیں
جب انتشار نہ دیکھا گیا گھرانوں کا
امان کہتے ہیں جس کو بس اک تصور ہے
کہ یوں ٹھہر سا گیا وقت امتحانوں کا
جو اس کے ہونٹوں کی جنبش میں قید تھا اشہرؔ
وہ ایک لفظ بنا بوجھ میرے شانوں کا
غزل
بدن میں اولیں احساس ہے تکانوں کا
اقبال اشہر