خواہش ہمارے خون کی لبریز اب بھی ہے
کچھ نرم پڑ گئی ہے مگر تیز اب بھی ہے
اس زندگی کے ساتھ بزرگوں نے دی ہمیں
اک ایسی مصلحت جو شر انگیز اب بھی ہے
حالانکہ اضطراب ہے ظاہر سکون سے
کیا کیجیے اس کا لہجہ دل آویز اب بھی ہے
مدت ہوئی شباب کے چرچے تھے شہر میں
وہ زعفرانی رنگ ستم خیز اب بھی ہے
اشہرؔ بہت سی پتیاں شاخوں سے چھن گئیں
تفسیر کیا کریں کہ ہوا تیز اب بھی ہے
غزل
خواہش ہمارے خون کی لبریز اب بھی ہے
اقبال اشہر قریشی