سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا
اب کوئی خواب نہیں نیند اڑانے والا
یہ وہ صحرا ہے سجھائے نہ اگر تو رستہ
خاک ہو جائے یہاں خاک اڑانے والا
کیا کرے آنکھ جو پتھرانے کی خواہش نہ کرے
خواب ہو جائے اگر خواب دکھانے والا
یاد آتا ہے کہ میں خود سے یہیں بچھڑا تھا
یہی رستہ ہے ترے شہر کو جانے والا
اے ہوا اس سے یہ کہنا کہ سلامت ہے ابھی
تیرے پھولوں کو کتابوں میں چھپانے والا
زندگی اپنی اندھیروں میں بسر کرتا ہے
تیرے آنچل کو ستاروں سے سجانے والا
سبھی اپنے نظر آتے ہیں بظاہر لیکن
روٹھنے والا ہے کوئی نہ منانے والا
لے گئیں دور بہت دور ہوائیں جس کو
وہی بادل تھا مری پیاس بجھانے والا
غزل
سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا
اقبال اشہر