کبھی کسک جدائی کی کبھی مہک وصال کی
قدم نہ تھے زمیں پہ جب وہ عمر تھی کمال کی
کئی دنوں سے فکر کا افق اداس اداس ہے
نہ جانے کھو گئی کہاں دھنک ترے خیال کی
رفاقتوں کے وہ نشاں نہ جانے کھو گئے کہاں
وہ خوشبوؤں کی رہ گزر وہ رتجگوں کی پالکی
کسی کو کھو کے پا لیا کسی کو پا کے کھو دیا
نہ انتہا خوشی کی ہے نہ انتہا ملال کی
وہ روشنی کا خواب تھا مگر وہی سراب تھا
عروج میں چھپی ہوئی تھی ابتدا زوال کی
غزل
کبھی کسک جدائی کی کبھی مہک وصال کی
اقبال اشہر